Saturday 9 February 2019

آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے سندھ کا حق ہتھیانے کی تیاری

آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے سندھ کا حق ہتھیانے کی تیاری



فاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے سندھ کے حق پرڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں سندھ حکومت کے پاس عوامی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کیلئے فنڈز کی قلت پیدا ہوگی جس کی زد میں اسکولز، اسپتال،پارکس، سڑکیں،توانائی اور ترقیاتی منصوبے آئیں گے۔


آپ کو حیرت ہوگی کہ آئی ایم ایف کے قرضے کا سندھ کے حق سے کیا تعلق ہے۔ تو اس کو سمجھنے کیلئے ذرا بات کو واضح کرتے ہیں۔پاکستان اس وقت قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہا ہے۔ قرض کی صورت میں حاصل ہونے والے ڈالرز پرانے قرضوں اور ضروری درآمدات کی ادائیگی کیلئے استعمال کیے جائیں گے۔ ضروری درآمدات میں پٹرولیم مصنوعات، مشینری اور خام مال شامل ہے اور یہ درآمدات ملکی معیشت چلانے کیلئے لازمی ہیں۔

اب آئی ایم ایف نے قرض دینے کی جو شرائط رکھی ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنا بجٹ خسارہ کم کرے اور اس مقصد کیلئے عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ سندھ کو دی جانے والی رقم میں کٹوتی کرے۔ سندھ کو 70 فیصد ریونیو وفاق سے ملتا ہے اور وفاق سندھ کو ملنے والی رقم میں کٹوتی کرسکتا ہے۔

اس کو مزید واضح کرنے کیلئے یہ بتاتا چلیں کہ حکومتی محصولات یا آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہوتے ہیں۔ تمام صوبے اور وفاق ملک بھر سے ٹیکس اکھٹے کرتے ہیں۔ جمع ہونے والی رقم کو ’قابل تقسیم محاصل‘ کہا جاتا ہے یعنی یہ رقم بعد میں صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہوتی ہے اور تقسیم ہونے تک یہ پوری رقم وفاق کے پاس رکھی جاتی ہے۔

تقسیم کے وقت اس رقم کا 42 اعشاریہ 5 فیصد وفاق کے حصے میں آتا ہے جبکہ بقیہ 57 اعشاریہ 5 فیصد صوبوں میں تقسیم ہوتا ہے اور صوبوں میں تقسیم کا فارمولا ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت طے کردیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اگلے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے پہلے سے ہی کام شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس معاملے پر اسلام آباد میں ایک اجلاس بھی ہوچکا ہے۔ وفاقی حکومت نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ صوبوں کے حصے میں کتنے فیصد کٹوتی ہوگی مگر سابق وزیرخزانہ نے 6 سے 7 فیصد کٹوتی کی تجویز دی تھی۔

اگر وفاقی حکومت نے واقعتاً صوبوں کے حصے میں کٹوتی کردی تو اس سے وفاق کے ریونیو میں تو اضافہ ہوجائے گا مگر سندھ 18 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی صوبائی خودمختاری سے محروم ہوجائے گا۔

سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ سندھ کے پاس اسکولوں، اسپتالوں، سڑکوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے رقم کم پڑ جائے گی کیوں کہ سندھ کا 70 فیصد ریونیو وفاق سے آتا ہے۔

یہ صورتحال ذہن میں رکھنے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ آج کل غصے سے بھری تقریریں کیوں کر رہے ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں مسلسل وفاقی حکومت پر الزام عائد کرتے آرہے ہیں کہ سندھ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاق نے پہلے ہی سندھ کے 104 ارب روپے روک رکھے ہیں جس کے باعث ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں۔ گزشتہ برس بھی بجٹ تقریر کے دوران مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کردہ بجٹ میں 24 ارب روپے کی کٹوتی کا سامنا ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت کے ’قابل تقسیم محاصل‘ میں 60 فیصد سندھ سے جمع ہوتے ہیں مگر تقسیم کے دوران سندھ کو صوبوں کو دی جانی والی 57 فیصد رقم کا چوتھا حصہ ملتا ہے۔

سندھ کو اس کٹوتی کا زیادہ خوف اس لیے بھی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی اپنی اور بلوچستان میں ان کی اتحادی حکومت ہے۔ اس لیے تینوں صوبے اس کٹوتی کی مخالفت نہیں کریں گے جس کے باعث وفاق کو اپنا فیصلہ منوانے میں آسانی ہوگی۔

اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف صوبوں کے حصے میں کٹوتی کیوں کرتی ہے، آیا ان کے پاس دیگر راستے نہیں ہیں؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ وفاقی حکومت خود اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ خسارہ اس وقت 2 کھرب سے زائد ہے۔ یعنی اخراجات اور آمدنی میں 2 کھرب کا فرق ہے۔

حکومت کے بڑے اخراجات میں قرضوں کی ادائیگی اور سیکیورٹی شامل ہیں۔ وفاق کا 60 فیصد بجٹ دفاعی امور اور پہلے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔ اب حکومت دفاعی بجٹ یا قرضوں کی ادائیگی کم کرنے سے متعلق تو بالکل بے بس ہے اس لیے ریونیو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ خسارہ کم کیا جاسکے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اپنے ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد صوبوں کے پیسے پر ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے۔ صرف مرادعلی شاہ ہی ایسا نہیں کہتے بلکہ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے مجھے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘جب آپ اپنے حصے کا گوشت پکا نہیں سکتے تو میں آپ کو اپنے حصے کا پکا ہوا گوشت کیوں دوں؟۔ یہ آپ کا خسارہ ہے، آپ ہی اس کو پورا کریں۔

قیصر بنگالی نے گزشتہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کی نمائندگی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کی کوشش بالکل نہیں کرتی، الٹا صوبوں کے حق پر ڈاکہ مارتی ہے۔

قیصر بنگالی کے مطابق آئی ایم ایف نے 2008 میں صوبوں کو سرپلس بجٹ پیش کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ تمام صوبوں کا سرپلس بجٹ مل کر وفاق کا بجٹ خسارہ پورا کرسکے۔ لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں کیوں کہ خسارہ جس کا ہے، وہی پورا کرے۔ ایک کا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے دوسرے کو سرپلس بجٹ پیش کرنے پر کیوں مجبور کیا جائے۔

No comments:

Post a Comment